
چلاس ڈیم ترقی کا منصوبہ یا مقامی آبادی کے حقوق پر ضرب؟
تحریر۔عبدالوحید
پاکستان میں توانائی بحران اور پانی کی قلت کے پیش نظر حکومت نے بڑے پیمانے پر ڈیموں کی تعمیر کا آغاز کیا ہے، جن میں چلاس ڈیم بھی شامل ہے۔ حکومتی مؤقف کے مطابق، یہ منصوبہ ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے، زراعت کو فروغ دینے اور پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن دوسری جانب، مقامی آبادی اسے اپنے بنیادی حقوق، زمینوں اور روزگار پر ایک سنگین حملہ تصور کر رہی ہے، جس کے باعث چلاس کے عوام میں شدید بے چینی اور احتجاج کی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔
چلاس کے رہائشیوں کا مؤقف ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف ان کی زمینیں زیر آب آ جائیں گی، بلکہ وہ اپنی ثقافتی وراثت اور روزگار سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ بیشتر خاندان نسل در نسل ان زمینوں پر آباد ہیں، جہاں ان کی معیشت کا انحصار زراعت اور مویشی پالنے پر ہے۔ اگرچہ حکومت نے متاثرین کو معاوضہ دینے اور متبادل زمین فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے، مگر عوام کو خدشہ ہے کہ یہ وعدے صرف کاغذی کاروائی تک محدود رہیں گے، جیسے ماضی میں کئی ترقیاتی منصوبوں میں دیکھا جا چکا ہے۔
حکومت کے مطابق، چلاس ڈیم نہ صرف ملکی سطح پر توانائی بحران کے حل میں مدد دے گا بلکہ اس سے مقامی لوگوں کو بھی فائدہ پہنچے گا، کیونکہ اس منصوبے کے تحت انفراسٹرکچر، سڑکوں اور ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔ تاہم، اس وقت سب سے بڑا چیلنج مقامی آبادی کے خدشات کو دور کرنا ہے۔ اگر یہ منصوبہ واقعی سب کے لیے فائدہ مند بنانا ہے، تو حکومت کو چاہیے کہ:
شفاف اور قابلِ عمل منصوبہ بندی کرے، جس میں متاثرین کے حقوق کو ترجیح دی جائے۔
مقامی لوگوں کو اعتماد میں لے کر ان کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کیے جائیں، تاکہ ان کے تحفظات دور ہو سکیں۔
مناسب معاوضہ اور متبادل زمین کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ کسی بھی خاندان کو نقصان نہ پہنچے۔
مقامی افراد کو اس منصوبے میں براہِ راست شامل کیا جائے، تاکہ انہیں روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں۔
چلاس ڈیم جیسے ترقیاتی منصوبے قومی سطح پر فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں، مگر ان کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ عوام کے حقوق کو نظر انداز نہ کریں۔ اگر حکومت اور مقامی آبادی کے درمیان بہتر مواصلات اور شفاف پالیسی اپنائی جائے، تو یہ منصوبہ حقیقی ترقی کا سبب بن سکتا ہے، ورنہ یہ ایک اور متنازعہ مسئلہ بن کر رہ جائے گا۔ ترقی کا حقیقی معیار یہی ہے کہ وہ سب کے لیے یکساں مفید ہو، نہ کہ کسی ایک طبقے کی قربانی پر تعمیر کی جائے۔