اہم ترین

قراقرم ہائے وے کا سفر

جنت سے پہلے جنت جانے کا خوف

جنت کے راستے یا جنت کا راستہ؟ شاہراہِ قراقرم پر سفر کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ

تحریر حسینہ اعظم….
کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی وادیاں زمین پر جنت کا منظر پیش کرتی ہیں۔ سرسبز پہاڑیاں، برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں، نیلگوں ندیاں اور خاموش فضائیں۔
مگر اگر آپ نے واقعی ان حسین مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی ٹھان لی ہے تو ذرا سنبھل جائیے کیونکہ اس خوابناک سفر کے دوران آپ کا سامنا جنت کے نظاروں سے پہلے خود جنت کی طرف سفر کے خطرے سے بھی ہو سکتا ہے۔
چلاس سے گلگت اور پھر سکردو جانے والی سڑکیں جنہیں ’شاہراہ قراقرم‘ اور ’سکردو روڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا کی خطرناک ترین شاہراہوں میں شمار ہوتی ہیں۔
یہاں کی سڑکیں اس قدر تنگ ہیں کہ ایک طرف سے اگر ٹرک آ جائے تو دوسری طرف آنے والی گاڑی کے مسافروں کو اپنی سانسیں روک کر دعا کرنی پڑتی ہے۔
بارش ہو یا برفباری، ان راستوں پر سفر کرنا گویا اپنی جان اللہ کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔
صرف 2023 میں شاہراہِ قراقرم پر 270 سے زائد ٹریفک حادثات رپورٹ ہوئے جن میں 80 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
جہاں سڑکیں خستہ حال ہیں وہیں عوامی ٹرانسپورٹ کا حال اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔
یہاں کی بسیں نہ تو ایئر کنڈیشن ہوتی ہیں نہ محفوظ۔ بعض بسوں کے دروازے سفر کے دوران خودبخود کھل جاتے ہیں اور کچھ کی ونڈ اسکرینیں ٹوٹ کر راہگیروں کو سلامی دیتی ہیں۔
2024 میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جب ایک بس تلچی پل کے قریب بریک فیل ہونے کے باعث دریائے سندھ میں جا گری۔ نتیجتاً 14 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ 12 اب تک لاپتہ ہیں۔
یہ حادثہ کسی اچانک قدرتی افتاد کا نہیں بلکہ مسلسل نظر انداز کی جانے والی حفاظتی خامیوں کا نتیجہ تھا۔
لیکن یہاں مسئلہ صرف سڑکوں یا گاڑیوں کی خستہ حالی تک محدود نہیں۔
جب بھی عوام یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ "ہماری سڑکیں کیوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں؟” یا "ہماری بسیں موت کے کنویں کیوں بنی ہوئی ہیں؟” تو سیاستدان فوری طور پر فرقہ واریت کا کارڈ کھیل کر اصل مسائل سے توجہ ہٹا دیتے ہیں۔
معمولی تنازعات کو بڑھا چڑھا کر لسانی اور فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے تاکہ عوامی سوالات دب جائیں۔
حال ہی میں گلگت شہر میں ہونے والا ایک معمولی جھگڑا پورے علاقے میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی واضح مثال ہے۔
حالات یہ ہیں کہ اگر آپ ذاتی گاڑی میں اس سفر پر روانہ ہونا چاہتے ہیں تو ہر پرزہ، ہر بریک اور ہر ٹائر بہترین حالت میں ہونا لازم ہے۔
ان خطرناک موڑوں پر ذرا سی لاپرواہی آپ کو یا تو دریائے سندھ کے بیچوں بیچ پہنچا سکتی ہے یا کسی کھائی کی تہہ میں۔یہاں اگر گاڑی خراب ہو جائے تو دھکا لگانے سے زیادہ دعاؤں سے امید باندھی جاتی ہے۔
تاہم، اگر آپ نے ان تمام خطرات، سیاسی بے حسی اور سماجی سازشوں کے باوجود ہمت کر کے شاہراہ قراقرم کے خطرناک راستوں کو عبور کر لیا تو آپ کو واقعی وہ جنتی نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو ملیں گے جن کا خواب آپ نے دیکھا تھا۔۔۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ زندہ سلامت!

شیرین کریم

شیرین کریم کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے وہ ایک فری لانس صحافی ہیں جو مختلف لوکل ،نیشنل اور انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ رپورٹنگ کرتی ہیں ۔ شیرین کریم فیچر سٹوریز ، بلاگ اور کالم بھی لکھتی ہیں وہ ایک وی لاگر بھی ہیں اور مختلف موضوعات خاص کر خواتین کے مسائل ,جنڈر بیسڈ وائلنس سمیت عوامی مسائل ،موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل پر اکثر لکھتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button